Poverty
16/05/2021Great tips for repelling flies and mosquitoes
30/05/2021ایک شخص ایک ذبح کی ہوئی مرغی لے کر مرغی فروش کی دکان پر گیااور کہا “بھائی ذرا اس مرغی کو کاٹ کر مجھے دے دو”
مرغی فروش نے کہا “مرغی رکھ کر چلے جاو آدھے گھنٹے بعد آکر لے جانا”
وہ بندہ مرغی رکھ کر چلا گیا کہ اتنے میں اتفاق سے شہر کا قاضی مرغی فروش کی دکان پر آگیا۔ اور دکاندار سے کہا کہ “یہ مرغی مجھے دے دو” دکاندار نے کہا کہ “یہ مرغی میری نہیں بلکہ کسی اور کی ہے۔ اور میرے پاس بھی کوئی مرغی نہیں بچی جو میں آپ کو دے سکوں” قاضی نے کہا کہ کوئی بات نہیں ” تم یہی مرغی مجھے دے دو اس کا مالک آئے تو اسے کہنا کہ تمہاری مرغی اڑ گئی ہے”
دکاندار نے کہا کہ ” ایسا کہنے کا بھلا کیا فائدہ ہو گا؟ مرغی تو اس نے خود ذبح کر کے مجھے دی تھی تو پھر ذبح کی ہوئی مرغی بھلا کیسے اڑ سکتی ہے”؟
قاضی نے کہا میں شہر کا قاضی ہوں تم جو میں کہتا ہوں ویسا ہی کرو یہ مرغی مجھے دے دو اور اس کا مالک آئے تو تم بس اسے اتنا کہ دینا کہ تیری مرغی اڑ گئی ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ تمہارے خلاف مقدمہ کروائے گا تو وہ مقدمہ میرے پاس ہی آئے گا۔ تو میں اسے سنبھال لوں گا۔ دکاندار نے کہا کہ اللہ سب کا پردہ رکھے اور چارو ناچار مرغی قاضی کو دے دی۔
قاضی مرغی لے کر نکلا کہ اتنے میں مرغی کا مالک بھی آگیا اور دکاندار سے اپنی مرغی کا مطالبہ کیا تو دکاندار نے ایسے ہی کہا کہ میں نے مرغی کاٹ دی تھی لیکن تمہاری مرغی اڑ گئی ہے۔
مرغی والے نے حیران ہو کر پوچھا : بھلا ذبح کی ہوئی مرغی کیسے اڑ سکتی ہے حالانکہ میں نے خود ذبح کی تھی۔ دونوں میں تکرار شروع ہو گئی یہاں تک کہ بات جھگڑے تک پہنچ گئی۔ جس پر مرغی والے نے کہا کہ چلو قاضی کے پاس عدالت میں چلتے ہیں۔ اور وہ دونوں عدالت کی طرف چل پڑے۔ ابھی وہ رستے میں ہی تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں۔ ان میں ایک مسلمان اور دوسرا یہودی تھا۔ انہوں نے چھڑانے کی کوشش کی تو دکاندار کی انگلی یہودی کی آنکھ میں جا لگی جس سے یہودی کی آنکھ ضائع ہو گئی۔ لوگوں نے دکاندار کو پکڑ لیا اور کہا کہ تمہیں قاضی کے پاس لے کر جائیں گے۔ دکاندار پر پہلے ہی ایک الزام تھا اب دو الزام لگ گئے تھے۔ جیسے ہی لوگ اسے لے کر عدالت کے قریب پہنچے تو مرغی والا لوگوں سے اپنا آپ چھڑوا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔لوگ اس کے پیچھے بھاگے تو وہ ایک قریبی مسجد میں داخل ہو گیا اور جلدی سے مسجد کے مینار پر چڑھ گیا۔ لوگ اس کے پیچھے پیچھے مینار پر چڑھنے لگے تو اس نے مینار سے نیچے چھلانگ لگا دی اور نیچے ایک بوڑھے آدمی پر آگرا جس سے وہ بوڑھا آدمی مر گیا۔ اب اس بوڑھے آدمی کے بیٹے نے بھی اسے پکڑ لیا اور لوگوں کے ساتھ مل کر اسے قاضی کے پاس لے کر پہنچ گئے۔
قاضی نے جیسے ہی مرغی فروش کو دیکھا تو اسے اپنی مرغی یاد آگئی جس پر وہ ہنس پڑا اسے باقی دو کیسوں کا علم نہیں تھا۔ جیسے ہی اس نے باقی کیسوں کے بارے میں بھی سنا تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
اب اس نے کچھ کتابوں کو الٹا پلٹا کر دیکھا اور کہا کہ ” ہم تینوں کیسوں کا یکے بعد دیگرے (یعنی ایک ساتھ) فیصلہ سنائیں گےسب سے پہلے مرغی کے مالک کو عدالت میں بلایا گیا۔
قاضی نے پوچھا: تمہارا دکاندار پر کیا دعوی ہے ۔ مرغی والے نے کہا کہ جناب اس نے میری مرغی چرائی ہے کیونکہ میں نے اسے مرغی ذبح کر کےدی تھی اور یہ کہتا ہے کہ مرغی اڑ گئی ہے۔
قاضی صاحب ! بھلا ذبح کی ہوئی مرغی کیسے اڑ سکتی ہے؟
قاضی نے کہا! کیا تمہیں اللہ عزوجل کی قدرت پر یقین نہیں ہے؟
مرغی والا بولا ! جناب کیوں نہیں ہو گا یقین۔
قاضی نے کہا! کیا اللہ تعالی بوسیدہ ہڈیوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں؟ تمہاری مرغی کو زندہ کر دینا بھلا اس رب کے لیے کیا مشکل ہے؟
یہ سن کر مرغی والے نے اپنا کیس واپس لے لیا۔ قاضی نے کہا دوسرے مدعی کو پیش کرو۔ یہودی کو پیش کیا گیا تو اس نے اپنا مدعا بیان کیا اور کہا کہ قاضی صاحب اس نے میری ایک آنکھ میں انگلی مار کر میری آنکھ ضائع کی ہے ۔ اب میں بھی اس کی آنکھ میں انگلی مار کر ضائع کرنا چاہتا ہوں۔
قاضی نے تھوڑی دیر کے لئے سوچا اور کہا: کہ مسلمان پر غیر مسلم کی دیت نصف ہے ، اس لیے میں اسے اجازت دیتا ہوں کہ یہ تمہاری دوسری آنکھ بھی نکال دے۔ اس کے بعد تم بھی اس کی ایک آنکھ نکال دینا۔ یہ سننا تھا کہ یہودی بول اٹھا ! بس رہنے دیں میں اپنا کیس واپس لیتا ہوں۔ تیسرا مقدمہ بھی پیش کیا جائے ! قاضی نے کہا۔ مرنے والے بوڑھے کے بیٹے نے آگے بڑھ کر کہا! کہ قاضی صاحب اس نے میرے بوڑھے باپ پر اوپر سے چھلانگ لگائی جس سے میرا باپ مر گیا۔ قاضی نے تھوڑی دیر تک سوچا اور پھر بولا! کہ آپ ایسا کرو کہ اسی مینار پر چڑھ جاو اور نیچے مرغی فروش کو کھڑا کیا جائے گا تم اس پر چھلانگ لگا دینا۔ جس طرح اس نے تمہارے باپ پر چھلانگ لگائی تھی جس سے وہ بھی مر جائے گا اور تمہارا بدلہ بھی پورا ہو جائے گا
نوجوان نے یہ سنا تو کہا! بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر یہ ذرا سا بھی دائیں بائیں ہو گیا تو میں تو نیچے زمین پر گر جاوں گا اور خود مر جاوں گا۔
قاضی نے کہا کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ میرا کام صرف عدل کرنا ہے۔ جب یہ تمہارے باپ پر گرا تو تمہارا باپ دائیں بائیں کیوں نہیں ہوا تھا ؟؟؟
یہ سننا تھا کہ اس نوجوان نے بھی اپنا کیس واپس لے لیا! اور مرغی فروش عدالت سے بری ہو گیا۔
اس بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر آپ کے پاس قاضی کو دینے کے لیے مرغی ہے تو پھر قاضی بھی آپ کو ہر ہال میں بچانے کا ہنر رکھتا ہے!
یہ فقط ایک کہانی تھی لیکن امید ہے کہ ہمارے ملک کے نظام عدل کو دیکھ کرآپ اس کہانی کا مطلب سمجھ گئے ہوں گے!